Rights of non‐Muslims under Islam | Ghair Muslim Ky Huqooq

(i.e. 

Rights And the neighbour who is a relative, and the neighbour who is a sidekick, and the companion who is a sidekick (Surah Al-Nisa: 36)

  • ((1) A neighbour who is also a relative.
  • (2) A neighbour who is not of the same religion or a relative.
  • (3) A temporary neighbour, such as a fellow worker, a classmate, a travelling companion, or someone who works in the same place.

Or business.

The Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) emphasised the importance of treating neighbours well.

Here are some of the sayings:

(a) A person is not a believer who is satisfied with his neighbour's hunger without being dependent on him. O Allah, the best of you is the one who is kind to his neighbour.

(c) If your neighbour needs help, help him; if he asks for a loan, lend him; if he is in need, support him financially; if he falls ill, treat him; and if he dies, attend his funeral. Go to the cemetery with him. And take care of his children. If he gets any honour, congratulate him. If he is in trouble, sympathise with him. Do not build your wall high without permission so that light and air can enter it. If you bring any fruit or furniture, send it to him too.

Reply) Hazrat Mujaheddin says that the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) used to emphasise the rights of neighbours so strongly that we used to think that perhaps the neighbours' share would be kept in the inheritance too.


Once in your gathering, a woman was mentioned who was a great worshipper. She fasts during the day. And performs Tahajud at night. But she annoys the neighbours. He said, "She is from Hell." And it was said about another woman that she only performs obligatory prayers (worship). But she cares about the rights of her neighbours. The Holy Prophet said, "She is from Paradise." (And) the Holy Prophet swore three times that a person is not a perfect believer whose misdeeds and tortures do not make his neighbours feel safe.


. Rights of Non-Muslims

Allah Almighty has clearly stated in the Holy Quran that infidels and polytheists can never be friends of Muslims. But despite this, He has instructed to treat non-Muslims with kindness. It is only a characteristic of Islam that it grants non-Muslims the same civil rights as Muslims and advises Muslims to treat them with kindness. The Holy Prophet has said,

: And do not accuse a people of doing wrong unless they do justice. Do justice

It is nearer to righteousness

Surah Al-Ma'idah

Translation, and do not abandon justice because of enmity towards a people, but do justice. This is nearer to righteousness.

Islam wants its followers to treat non-Muslims as a doctor treats a patient. With this kind treatment, Muslims have always won the hearts of non-Muslim nations.

Social Responsibilities

Islam wants to see human society prosper. Therefore, it has given great importance to morality and has declared the observance of moral values ​​as a religious duty for Muslims. In this regard, some virtues of morality are mentioned:

Honesty |

Honesty is a basic condition for the stability of economic and social relations. In a society where honesty is lost, irreparable damage occurs everywhere, from business dealings to domestic relations. Trust in each other is lost. Islam advises its followers to be honest in order to protect them from all these losses. The divine saying is:

Indeed, Allah, O you, entrusts you with the trusts to those to whom they are entrusted.

Surah An-Nisa: 58)

Translation: Indeed, Allah says: “Return the trusts to those to whom they are entrusted.” And where other characteristics of those who will achieve success in this world and the Hereafter are mentioned, it is also said:

And those who are trustworthy and keep their trusts and their covenants: Surah Al-Mu’minun: 8)

Translation: And those who are trustworthy and keep their covenants.

Who does not know about the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) that even before he was elevated to the position of prophet hood, he was called by the title of Al-Min, meaning the Trustworthy, in the dishonest society of Arabia. His sense of honesty was such that even when he migrated to Medina, he arranged for the payment of the trusts of those who were trying to kill him. Islam did not limit the meaning of honesty to just business transactions, but expanded it to include the fulfilment of human rights within the scope of honesty. The Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said: "Even the things said in a gathering are a trust, that is, going to another place after listening to something is also considered dishonesty. Going further than this, Muslims were advised to consider all their physical and mental abilities as trusts given by Allah Almighty and use them all with the realization that one day Allah Almighty will have to give an account of them. In view of this definition of honesty, it is impossible for a person to be both a Muslim and dishonest. That is why the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said: Whoever does not have honesty has no faith!

Keeping a promise

The importance of keeping a promise, i.e. fulfilling a promise, in human relationships is indescribable. Most of our affairs are based on promises. If they are kept, things remain good. If they are violated, All matters deteriorate. This deterioration is what makes Muslims

(یعنی

وَ الْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنْبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنَّبِ 

(سورة النساء : ۳۶)

  • ((۱) وہ پڑوسی جو رشتے دار بھی ہو۔
  • (۲) وہ پڑوسی جو ہم مذہب یا رشتے دار نہ ہو۔
  • (۳) عارضی پڑوسی مثلاً ہم پیشہ ، ہم جماعت ، شریک سفر یا ایک ہی جگہ ملازمت
  • یا کاروبار کرنے والے ۔
ہمسایوں سے حسن سلوک کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت تاکید فرمائی 

۔ چند ارشادات درج ذیل ہیں 

 وہ شخص مومن نہیں جو اپنے ہمسائے کی بھوک سے بے نیاز ہو کر شکم سیر ہو ۔  تم میں سے افضل شخص وہ ہے جو اپنے ہمسائے کے حق میں بہتر ہے۔  اگر پڑوسی کو مدد کی ضرورت پڑے ، تو اس کی مدد کرو ، قرض مانگے تو اسے قرض دو محتاج ہو جائے تو اس کی مالی امداد کرو ، بیمار پڑ جائے تو علاج کراؤ۔ اور مرجائے تو جنازے کے ساتھ قبرستان جاؤ ۔ اور اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرو ۔ اگر اسے کوئی اعزاز حاصل ہو تو اسے مبارک باد دو۔ اگر مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس سے ہمدردی کرد . بغیر اجازت اپنی دیوار آتنی اونچی نہ کرو کہ اس کے لیے روشنی اور ہوا لگ جائے ۔ کوئی میوہ یا  سوغات وغیرہ لاؤ تو اسے بھی بھیجو

 حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ سول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں اتنی شدت سے تاکید فرماتے تھے کہ ہم یہ سوچنے لگتے کہ شاید میراث میں بھی پڑوسیوں کا حصہ رکھ دیا جائے گا ۔

 ایک بار آپ کی محفل میں ایک عورت کا ذکر آیا کہ وہ بڑی عبادت گزار  ہے۔ دن میں روزے رکھتی ہے ۔ اور رات کو تہجد ادا کرتی ہے ۔ لیکن پڑوسیوں کو تنگ کرتی ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔" وہ دوزخی ہے “ اور ایک دوسری عورت کے بارے میں عرض کیا گیا کہ وہ صرف فرائض (عبادات ادا کرتی ہے ۔ لیکن ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھتی ہے حضور نے فرمایا ۔ " وہ جنتی ہے "  سول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا کہ وہ شخص کامل مومن نہیں جس کی شرارتوں اور اذیتوں سے اس کے پڑوسی امن میں نہ  

۔ غیر مسلموں کے حقوق 

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس بات کی صراحت فرمادی ہے کہ کافر اور مشرک ہرگز ہرگز مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ لیکن اس کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ صرف اسلام کی خصوصیت ہے کہ وہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے سے شہری حقوق عطا کرتا ہے اور مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ ان سے شفقت آمیز برتاؤ کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے 

: وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا

هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقوى

رسورة المائده 

ترجمہ ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑ دو، عدل کرو۔ یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ ہے ۔

اسلام چاہتا ہے کہ اس کے پیرو کار غیر مسلموں سے ویسا ہی برتاؤ کریں جیسا ایک ڈاکٹر مریض سے کرتا ہے ۔ اسی حسن سلوک سے مسلمانوں نے ہمیشہ غیرمسلم اقوام کے دل جیتے ۔

 معاشرتی ذمے داریاں

اسلام انسانی معاشرے کو خوش حال دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس نے اخلاق حسنہ کو بڑی اہمیت دی ہے اور مسلمانوں کے لیے اخلاقی قدروں کی پاسداری کو مذہبی فریضہ قرار دیا ۔ اس سلسلے میں چند محاسن اخلاق کا ذکر کیا جاتا ہے :

دیانت داری | 

معاشی اور معاشرتی تعلقات کی استواری کے لیے دیانت ایک بنیادی شرط ہے۔ جس معاشرے سے دیانت داری ختم ہو جائے وہاں کا روباری معاملات سے لے کر گھریلو تعلقات تک ہر جگہ نا قابل اصلاح بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے ۔ ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ اسلام اپنے نام لیواؤں کو ان تمام نقصانات سے بچانے کے لیے دیانت داری کی تلقین کرتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :

إِنَّ اللهَ يَا مُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا

رسورة النساء : ٥٨)

ترجمہ: بے شک اللہ  فرماتا ہے کہ پہنچا دو امانتیں امانت والوں کو نیز جہاں دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کرنے والوں کی دیگر صفات بنائی گئی ہیں وہاں یہ بھی فرمایا گیا ہے 

وَالَّذِينَ هُمُ لا مَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ : رسورة المؤمنون : ٨ )

ترجمہ ، اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کی نگہبانی کرتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے قبل بھی عرب کے بد دیانت معاشرے میں الامین کے یعنی دیانت دار کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احساس دیانت کا یہ عالم تھا کہ مدینے ہجرت کرتے وقت بھی ان لوگوں کی امانتوں کی ادائگی کا اہتمام فرمایا جو آپ کے قتل کے درپے تھے ۔ اسلام نے دیانت کے مفہوم کو محض تجارتی کارو بار تک محدود نہیں رکھا ، بلکہ وسعت دے کر حملہ حقوق العباد کی ادائگی کو دیانت کے دائرے میں شامل کر دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " محفل میں کی جانے والی باتیں بھی امانت ہیں ، یعنی ایک جگہ   کوئی بات سن کر دوسری جگہ جا نا بھی بد دیانتی میں داخل ہے ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کہ  کر مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ

 وہ اپنی تمام جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی امانتیں سمجھیں اور ان سب کو اس احساس کے ساتھ استعمال کریں کہ ایک روز اللہ تعالیٰ کو ان کا حساب دینا ہے ۔ دیانت کی اس تعریف کے پیش نظر نا ممکن ہے  کوئی شخص مسلمان بھی ہو اور بد دیانت بھی ۔ اسی لیے حضور اکرم نے فرمایا : جس میں دیانت نہیں اس میں ایمان نہیں !

ایفائے عہد 

انسانوں کے باہمی تعلقات میں ایفائے عہد یعنی وعدہ پورا کرنے کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ ہمارے اکثر معاملات کی بنیاد وعدوں پر ہوتی ہے ۔ وہ پورے ہوتے رہیں تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں ۔ اگر ان کی خلاف ورزی شروع ہو جائے تو سارے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اسی بگاڑ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلام ایفائے عہد کی تلقین کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

 : وَاَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًاه رسورة الاسراء ۳۳۱)

 ترجمہ : اور پورا کرعہد کو بے شک عہد کی پوچھ ہو گی۔

انسان کے تمام وعدوں میں اہم ترین عہد وہ ہے ، جو اس نے یوم ازل بندگی کے معاملے میں اپنے خالق سے کیا تھا۔ قرآن عظیم نے اس کی یاد دہانی اس انداز سے کرائی ہے،

وَبِعَهْدِ اللَّهِ اَوْفُوا ذَلِكُمْ وَقَكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمُ تَذَكَّرُونَ :

رسورة الانعام : ۱۵۳)

ترجمہ : اور اللہ کا عہد پورا کرو تم کو یہ حکم کر دیا ہے۔ تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ 

ایک اور مقام پر باہمی معاہدوں اور اجتماعی رشتوں کی پاسداری کا لحاظ رکھنے کی ہدایت اس طرح فرمائی گئی 

: الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا آمَرَ اللهُ بِه أَن يُوصَلَ

رسورة الرعد : ۲۱۰۲۰)

ترجمہ : وہ لوگ جو پورا کرتے ہیں اللہ کے عہد کو اور نہیں توڑتے اس عہد کو اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں جن کو اللہ نے فرمایا ملانا۔

  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے سخت سے سخت حالات میں بھی عہد کی پابندی فرمائی ۔ مثلاً جب صلح حدیبیہ کے موقع پر   حضرت ابوجندل زنجیروں میں جکڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے اپنے جسم کے داغ دکھائے کہ اہل مکہ نے انھیں مسلمان ہو جانے پر کتنی اذیت دی ہے، اور درخواست کی کہ انھیں مدینہ ساتھ لے جایا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شفقت کے با وصف ، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں سے تھی، انھیں اپنے ہمراہ مدینے کے جانے سے محض اس لیے انکار کر دیا کہ قریش سے معاہدہ ہو چکا تھا کہ مگہ سے بھاگ کر آنے والے مسلمانوں کو مدینے سے لوٹا دیا جائے گا حضرت ابو جندل کی درد ناک حالت تمام صحابہ کرام کے لیے بے قراری کا باعث تھی لیکن صلح نامہ حدیبیہ کی پاس داری کے پیش نظر سب نے صبر و تحمل سے کام لیا ۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اپنے خصیوں میں اکثر یہ بات فرماتے تھے :

لَا دِينَ لِمَنْ لَّا عَهْدَ لَهُ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان )

ترجمہ : جسے وعدے کا پاس نہیں اس میں دین نہیں ۔

ہمارے لین دین کے جملہ معاملات اور باہمی حقوق ایفائے عہد ہی کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے دین داری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان سب کی پاسداری کریں ۔

 سچائی  

ایک ایسی عالمگیر حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر انسان سکھ  چین کا سانس نہیں لے سکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کو نہایت جامعیت کے ساتھ یوں ارشاد فرمایا :

الصدقُ يُنْجِي وَالْكِذَبُ يُهْلِكُ

ترجمہ : سچائی انسان کو ہر آفت سے محفوظ رکھتی ہے اور جھوٹ اسے ہلاک کرڈالتا ہے۔ قرآن کریم میں باری تعالیٰ نے اپنے صادق القول ہونے کا ذکر فرمایا ۔ مثلاً


وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا 

ترجمہ :  اور اللہ سےسچی کس کی بات ہے . )

وسورة الشام : ۱۸۷

اسی طرح قرآن حکیم میں انبیاء کی اس صفت کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے کہ وہ راست گفتار تھے۔ سچائی کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے۔ تمام انبیاء نے وہیں سے سچائی حاصل کی اور دنیا میں پھیلائی ۔ اس سچائی سے انکار کرنے والا زندگی کے ہر معاملے میں جھوٹ اور باطل کی پیروی کرتا ہے ، اور ہلاک ہو کر رہتا ہے ۔ اردو میں ہم کی کا لفظ نی گفتگو کے تعلق سے استعمال کرتے ہیں، لیکن قرآن مجید کے مفہوم میں قول کے ساتھ عمل اور خیال تک کی سچائی شامل ہے ۔ یعنی صادق وہ ہے جو نہ صرف زبان ہی سےسچ بولے بلکہ اس کے فکر و عمل میں بھی سچائی رچی بسی ہو 

۔ عدل و انصاف 

عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کا جائز حق بہ آسمانی مل جائے ۔ نظام عدل کی موجودگی میں معاشرے کے امور بخیر وخوبی سر انجام پاتے ہیں۔ اور بے انصافی کی وجہ سے معاشرے کا ہر شعبہ مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ۔ بعثت نبوی سے قبل دنیا عدل و انصاف کے تصور سے خالی ہو چکی تھی ۔ طاقتور ظلم وستم کو اپناحق سمجھنے لگے تھے اور کمزور اپنی مظلومیت کو مقدر سمجھ کر برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ دین اسلام کے طفیل ظلم وستم کا یہ کا روبار بند ہوا اور دنیا عدل وانصاف کے اس اعلیٰ معیار ہے آشنا ہوئی جس نے رنگ و نسل اور قوم و وطن کے امتیازات کو مٹا کر رکھ دیا۔ نانصافی کی بنا پر انسانوں کے مختلف طبقوں اور گروہوں کے درمیان نفرت کی جو دیوار کھڑی ہو گئی تھی، اسلام نے اسے گرا کر انسان کو انسان کے شانہ بشانہ لاکھڑا کیا ۔ اس طرح لوگوں کے درمیان انس و محبت کا وہ رشتہ استوار ہوا جو انسانیت کے لیے سرمایہ افتخار ہے ۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے عدل و انصاف کے معاملے میں بلا امتیاز تمام نسل انسانی کے درمیان مساوات قائم کرنے کا حکم دیا ۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے 

يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُوْنُوْا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاهُ

بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقوى 

ترجمہ : اے ایمان والو ! کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو ۔ عدل کرد۔ یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ ہے۔

رنگ ونسل کی طرح اسلام کے تصور عدل میں کسی کے اعلیٰ منصب اور مرتبے کو کوئی اہمیت نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علی آلہ وسلم کے وہ ارشادات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی خاتون کی چوری سے متعلق سزا کی معانی کی سفارش سن کر ارشاد فرمائے تھے۔

 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ہ تم سے پہلے قو میں اسی سبب سے برباد ہوئیں کہ ان کے چھوٹوں کو سزا دی جاتی تھی اور بڑوں کو   معاف کر دیا جاتا تھا۔ خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔“

اسلامی حکومت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس نے اپنے باشندوں کو ہمیشہ بے لوث انصاف فراہم کیا ہے اور حقیقت میں اسلامی حکومت کا اصل مقصد ہی نظام عدل کا قیام ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلطان عادل کو خدا کا سایہ قرار دیا ۔۔

 احترام قانون 

جس طرح قدرت کا نظام چند فطری قوانین کا پابند ہے ، اسی طرح معاشرے کا قیام ، معاشرتی ، اخلاقی اور دینی احکام و قوانین پر موقوف ہے۔ یوں تو دنیا کا کم عقل سے کم عقل انسان بھی قانون کی ضرورت، اس کی پابندی اور ہمیت کا اعتراف کرنے گا ، لیکن کم لوگ ایسے ہیں جو عملا قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوں عصر حاضر میں دو افراد کے باہمی معاملات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک لوگ ضابطے اور قانون کی پابندی سے گریزاں ہیں۔ اور لاقانونیت کے اس 

رجمان نے دنیا کا امن و سکون غارت کر دیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ انسان قانون کی افادیت کا قائل ہونے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کیوں کرتا ہے ؟ اس کی دو

  •  ایک خود غرضی اور مفاد پرستی ۔
  • (۲) دوسرے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنا ۔

اسلام ان دونوں وجوہ کا خوبی سے تدارک کر کے مسلمانوں کو قانون کا پابند نباتا ہے ۔ ایک طرف وہ انھیں خدا پرستی اور ایثار و سخاوت کا درس دیتا ہے، دوسری طرف ان میں آخرت کی جواب دہی کا احساس وشعور پیدا کرتا ہے ۔ اسلام انھیں احساس دلاتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ یا دھو کے قریب سے دنیا میں قانون کی خلاف ورزی کی سزا سے بچ بھی گئے تو آخرت میں انھیں خدا کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ آخرت میں جواب دہی کا یہی احساس اسلامی معاشرے کے گناہ میں ملوث ہو جانے والے افراد کو از خود عدالت میں جانے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ انھیں دنیا ہی میں سزادے کر پاک کر دیا جائے تاکہ وہ آخرت کی سزا سے بچ جائیں ۔